تعارف و تبصرہ

 

 

 

﴿۱

          نا م کتاب :                  ردودٌ علی اعتراضاتٍ موجَّہةٍ الی الاسلام (عربی)

          تالیف              :         الامام محمد قاسم النانوتوی، بانیِ دارالعلوم دیوبند

          تعریب             :         مولانا محمد ساجد القاسمی، استاذِ ادب عربی دارالعلوم دیوبند

          پہلی اشاعت        :         شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ = جون ۲۰۱۱/

          صفحات             :         ۱۴۰     قیمت: (درج نہیں)

          ناشر               :         شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند

          تبصرہ نگار           :         مولانا اشتیاق احمد

--------------

علمائے دیوبند میں سب سے عظیم ترین علمی شخصیت حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ کی ہے، موصوف علم وعمل دونوں میں سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیں، اسلام کی حقانیت کو عقلی، علمی اور فلسفیانہ انداز میں جس طرح حضرت نانوتوی نے پیش کیا ہے، اس کی مثال ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں نہیں ملتی، قرآن، حدیث، فقہ اور عقائد کے ساتھ شریعت کے اصول پر ایسی اعلیٰ معیار کی گرفت تھی، جس کی مثال نہیں ملتی، دفاعِ اسلام اور حفاظتِ شریعت کا عظیم ترین کارنامہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار ہے، خارجی فتنوں کی سرکوبی کے لیے بس آپ کا نام کافی تھا، داخلی فتنوں کو دور کرنے کے لیے بھی آپ نے بڑی جتن فرمائی؛ یہود ونصاریٰ کے ساتھ آریائی سورماؤں کے چھکّے چھُڑادیے، شیعوں، غیرمقلدین اور بدعتیوں کے لیے بھی کھلی تلوار تھے، آپ کی تصانیف کی تعداد تیس کے قریب ہے۔

”شیخ الہند اکیڈمی“ دارالعلوم دیوبند نے علمائے دیوبند کی تصانیف کی تحقیق، تخریج اور ترجمہ کی معیاری طباعت واشاعت کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، وہ بہت ہی قابلِ قدر ہے اور خصوصاً ترجمہ نے دائرئہ افادہ میں بڑی وسعت پیدا کردی ہے، اب تک دسیوں کتابوں کے ترجمے نے قارئین سے دادِ تحسین حاصل کرلی ہے ---- جناب مولانا محمد ساجد قاسمی زیدمجدہ کے متعدد ترجمے اکیڈمی سے شائع ہوچکے ہیں، موصوف ایک طرف بہترین مدرس ہیں تو دوسری طرف کامیاب اور باتوفیق مترجم بھی ہیں، ان کے تراجم عربی ماہ نامہ ”الداعی“ میں طبع ہوتے رہتے ہیں، انھوں نے ہی حضرت شیخ الہند کے والدِ محترم کی کتاب ”الہدیة السَّنیہ“ کا بھی ترجمہ کیا ہے، یہ ترجمہ اردو زبان میں ہے، ان کے علاوہ حضرت نانوتوی کی پانچ کتابوں کا ترجمہ کرکے انھوں نے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری وساری ہے، ذولسانی ادیب حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی مدّظلہ العالی کی زیرنگرانی یہ قابلِ قدر کارنامہ انجام پزیر ہورہا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب : ”ردودٌ علی اعتراضاتٍ مُوَجَّہَةٍ الی الاسلام“ بھی انھیں تراجم کی ایک کڑی ہے، یہ ”انتصار الاسلام“ کا مکمل اور ”قبلہ نما“ کے ابتدائی حصے (مجمل جواب) کا عربی ترجمہ ہے، ان میں حضرت نانوتوی نے پنڈت دیانند سرسوتی کے گیارہ اعتراضات وشبہات کا جواب دیا ہے، اوّل الذکر میں دس اور آخر الذکر میں صرف ایک اعتراض کا جواب ہے اور یہ ”استقبالِ قبلہ“ سے متعلق ہے، دیگر اعتراضات میں سے چند یہ ہیں: شیطان کو کس نے گمراہ کیا؟ اسلام میں چار شادیاں جائز کیوں ہیں؟ اسلام میں ذبح کا طریقہ غلط ہے، دنیا کی شراب کیوں حرام ہے؟ جب کہ جنت کی شراب حلال ہے!مسلمانوں کے دفن کا طریقہ صحیح نہیں ہے، وغیرہ ۔ ہراعتراض کا دو دو جواب دیاگیا ہے، ایک الزامی اور دوسرا تحقیقی اور ”قبلہ نما“ میں ایک جواب تو مجمل ہے، جو چوّن (۵۴) صفحات پر مشتمل ہے اور دوسرا جواب تفصیلی ہے جو ایک سو چھپن (۱۵۶) صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔

مترجم زیدمجدہ نے ”انتصار الاسلام“ کا مکمل ترجمہ پیش کیا ہے؛ البتہ ”قبلہ نما“ کے مجمل جواب کے ترجمہ پر اکتفاء کیاہے اور ایسا اس مصلحت سے کیاہے کہ ”مفصل جواب“ میں اسی اجمال کی تفصیل ہے، مجمل جواب کے مطالعہ سے بھی نہایت ہی جامعیت کے ساتھ پوری بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے؛ اس طرح اس کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا کہ پنڈت دیانند سرسوتی کے گیارہ اعتراضات کا جواب یکجا ہوگیا۔

ترجمہ نہایت ہی عمدہ ہے، اس میں حضرت نانوتوی کے الفاظ واسلوب کو بڑی ہی دیانت سے محفوظ رکھا گیا ہے، تعبیرات کے انتخاب میں مترجم نے کسی تکلف کو راہ نہ دی ہے، اس لیے مطالعہ کرنے والوں کا یہ تاثر ہے کہ: عربی ترجمہ اردو سے زیادہ آسان ہے، جو کتاب پہلے مشکل تھی اب آسان ہوگئی، حضرت نانوتوی کا ڈیڑھ صدی پہلے کا فلسفیانہ، دقیق علمی اسلوب، اور قدیم تعبیرات ومحاورات کا استعمال قاری کو گھبرادیتا تھا، عربی ترجمہ نے عربی زبان سے واقف اہلِ علم کے لیے استفادہ کو آسان کردیا، اسی طرح ”قاسمیت“ سے استفادہ کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا، اس ترجمہ میں ”ترجمة الموٴلف“ کے عنوان سے حضرت نانوتوی کی سوانح حیات بھی (ص۱۲ تا ۲۶) شاملِ اشاعت ہے، اس میں نہایت اختصار کے ساتھ حضرت نانوتوی کی پوری زندگی اور کارنامے مسطور ہیں۔

بہرکیف! ترجمہ نہایت ہی عمدہ اور مفید ہے، ”شیخ الہند اکیڈمی“ نے اپنی دیگر مطبوعات کی طرح اس ترجمہ کی کتابت، طباعت، کاغذ اور ٹائٹیل سب کے معیار کو بلند رکھا ہے، یہ ترجمہ عربی زبان کی شُدبُد رکھنے والے، علومِ قاسمی سے استفادہ کے جذبات رکھنے والی شخصیات کے لیے بہترین تحفہ ہے۔

 

﴿۲

          نا م کتاب           :         محاوراتٌ في الدین (عربی)

          تالیف              :         الامام محمد قاسم النانوتوی ،بانیِ دارالعلوم دیوبند

          تعریب             :         مولانا محمد ساجد القاسمی، استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند

          پہلی اشاعت        :         شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ = جون ۲۰۱۱/

          صفحات             :         ۲۲۰     قیمت: (درج نہیں)

          ناشر               :         شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند

          تبصرہ نگار           :         مولانا اشتیاق احمد

--------------

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ نے دو مرتبہ (۱۸۷۶/ اور ۱۸۷۷/ میں) عیسائیوں کا زبردست تعاقب فرمایا، شاہ جہاں پور (یوپی) میں عیسائیوں کی تحریض پر منشی پیارے لال نے ”میلہ خدا شناسی“ منعقد کیا، ان میلوں میں اصل نشانہ تو مسلمان تھے؛ مگر ہندوؤں کو بھی دعوت دی گئی تھی؛ تاکہ ہر مذہب والے اپنے مذہب کی حقانیت کو دلائل سے ثابت کریں، پادریوں نے اسلام کی مخالفت میں زبردست اعتراضات کی تیاری کررکھی تھی، ان میں سے ایک کو حکومت نے منطق کی ایک کتاب لکھنے پر انعام سے بھی نواز رکھا تھا، اس نے مناظرے کے دوران ”شرح تہذیب“ کا حوالہ بھی دیا تھا ---- غرض یہ کہ حضرت نانوتوی کو جب خبر ہوئی تو محض حقانیت ِ اسلام کو واضح کرنے کے لیے اپنے چند شاگردوں اور دہلی کے چند مقتدرعلماء کے ساتھ سفر کی صعوبت برداشت کی، اور کامیاب مناظرہ کرکے واپس ہوئے، عیسائیوں کے ایک ایک اعتراض کا دندان شکن جواب دیا، توحید، رسالت اور آخرت کی معقولیت ثابت کرنے کے ساتھ ہی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت اور تثلیث کے دعووں کی زوردار تردید فرمائی، رسول اللہ … کی افضلیت اور خاتمیت پر بے غبارتقریر فرمائی، جنت کے وجود، شیطان اور ملائکہ کے وجود کو بھی اچھی طرح ثابت کیا، اخیر میں نہایت سلیقہ سے عیسائیوں کو اسلام کی دعوت بھی دی۔

پہلے سال کے مباحثے کو حضرت مولانا محمد ہاشم اور مولانا محمد حیات صاحب وحمہما اللہ نے ”گفتگوئے مذہبی“ کے نام سے ترتیب دیا تھا اور دوسرے سال کے مباحثے کو حضرت مولانا فخرالحسن گنگوہی نے ”مباحثہٴ شاہ جہاں پور“ کے نام سے ترتیب دیا تھا، یہ دونوں مناظرے نہایت ہی عمدہ اور مطالعہ کے لائق ہیں۔

جناب مولانا محمد ساجد قاسمی زید مجدہ نے، حضرت نانوتوی کی دوسری تصانیف کی طرح ان دونوں مناظروں کی بھی تعریب فرمائی ہے، مولانا کو ترجمہ کا نہایت ہی اعلیٰ ذوق نصیب ہوا ہے۔

یہ ترجمہ مناظر کی مراد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ذولسانی ادیب حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی مدظلہ العالی کی نگرانی میں یہ کام اوّل سے آخرتک انجام پزیر ہوا ہے اور ”الداعی“ میں قسط وار شائع بھی ہوچکا ہے۔ یہ ترجمہ بھی دیگر تراجم کی طرح نہایت عمدہ، سلیس اور سادہ اسلوب میں سامنے آیا ہے، اس طرح عربی قارئین کے لیے بھی استفادہ آسان ہوگیا اور ”قاسمیت“ کا دائرئہ افادہ بڑھ گیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ”شیخ الہند اکیڈمی“ ترجمہ کی مہم کو بڑھاتی اور سارے اکابر علمائے دیوبند کی کتابیں اہم ترین ”بین الاقوامی“ زبانوں میں شائع ہوتیں!

بہرکیف! ترجمہ میں ظاہری اور باطنی دونوں خوبیاں موجود ہیں، کتابت، تصحیح، طباعت، تجلید، کاغذ ہر ایک کا معیار کافی بلند ہے۔ یہ کتاب بھی علوم قاسمیہ کے شیدائیوں کے لیے عظیم تحفہ ہے۔

***

------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ، جلد: 96 ‏، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ء